Fazail o Difa e Ameer e Muawiya Part 1

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وحی اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے کا ثبوت !
____________________________________________
قسط : 1 

البدایة والنھایة :

حضرت امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ  قریشی اور اموی ہیں۔ تمام مومنوں کے خالو  اور اللہ تعالی کی وحی کے کاتب تھے۔ یہ ان کے والد اور ان کی والدہ ہند بنت عتبہ فتح مکہ کے دن مشرف بااسلام ہوئے ۔خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عمرۃالقضاء کے موقع پر مسلمان ہو گیا تھا لیکن میں نے اپنے والد سے اسلام کو فتح مکہ تک چھپائے رکھا ۔ان کا باپ دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں میں سے تھا۔غزوہ بدر کے بعد قریش کی سرداری ان کو ملی۔ لہذا یہی معاویہ قریش کی طرف سے لڑائی کے لیے سپہ سالار ہوئے۔ بہت بڑے امیر اور لوگوں کی آقا تھے ۔جب مسلمان ہوئے تو عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ارشاد فرمائیں۔  کہ میں جس طرح اسلام سے قبل مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ اسی طرح اسلام لانے کے بعد کفارسے لڑوں۔ فرمایا: اجازت ہے۔ پھر معاویہ رضی اللہ عنہ  عرض گزار ہوئے کہ مجھے اپنا کاتب مقرر کر لیجئے۔ فرمایا: منظور ہے۔ عرض کی حضور میری بہن سے شادی کرلیں۔  اور اسے ام حبیبہ کا شریک بنالیں۔ لیکن یہ عرض منظور نہ ہو سکی۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کرنا (یعنی دو بہنوں کا نکاح میں جمع ہونا جائز نہیں ہے )مقصد یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دیگر کاتبان وحی کی طرح کاتب وحی تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے احکامات وغیرہ کی کتابت کرتے تھے ۔(رضی اللہ عنہم )
(البدایة و النھایة جلد ٨ صفحہ ٢٠۔ ٢١ مطبوعہ بیروت )

البدایة والنھایة:

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ مومنوں کے خالو اور اللہ تعالی کی وحی کے کاتب تھے معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مکہ میں عمرۃالقضاء کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو میں ان پر ایمان لا چکا تھا۔ پھر جب مکہ فتح مکہ ہوا تو اس دن میں نے اپنا اسلام لانا ظاہر کردیا۔ میں جب اس مرتبہ حضور علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا۔ تو آپ نے خوش آمدید کہا۔ میں آپ کے حکم سے وحی کی کتابت کرتا رہا۔ ان کا باپ قریش کے سرداروں میں سے ایک تھا۔ غزوہ بدر کے بعد امیر معاویہ کو سرداری مل گئی۔ پھر جب اسلام لائے تو ان کا اسلام لانا بہت اچھا تھا ان کے فضائل اور اخلاق قابل تعریف تھے۔ جنگ یرموک اور اس سے پہلے و بعد میں ان کی خدمات قابل تحسین تھیں۔  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی۔ دوسرے کاتبین وحی کے ساتھ یہ بھی وحی کی کتابت کرتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث کی ان سے روایت صحیحین وغیرہ میں موجود ہے۔ پھر ان سے روایت کرنے والوں میں صحابہ کرام اور تابعین بھی بکثرت ہیں۔ابوبکر بن ابی دنیا کے قول کے مطابق جناب معاویہ لمبے قد، اور سفید رنگ والے ،خوبصورت شخص تھے ۔
(البدایة والنھایة جلد ٨ اصلی صفحہ ١١۵ مطبوعہ بیروت )

الاصابہ:

امیرالمومنین جناب معاویہ رضی اللہ عنہ  سے پانچ سات یاں تیرہ برس قبل پیدا ہوئے۔اول تاریخ زیادہ  مشہور ہے۔واقدی نے بیان کیا کہ یہ حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ اور انہوں نے اسلام چھپائے رکھا حتیٰ کہ فتح مکہ کو ظاہر کیا۔ آپ عمرۃالقضاء میں مسلمان تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما  کہتے ہیں کے معاویہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر انور کے بال مروة کے نزدیک کاٹے۔ ابو نعیم کے مطابق جناب معاویہ رضی اللہ عنہ  کاتب وحی، بڑے فصیح،  بردباد اور باوقار آدمی تھے ۔
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دراز قد، سفید رنگ اور خوبصورت شخص تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی۔  تھے اور آپ پر اترنے والی وحی کی کتابت فرمایا کرتے تھے ۔ 
(الاصابة فی تمییز الصحابة جلد ٣ صفحہ ۴٣٣ حرف المیم )

 لمحہ فکریہ :

مذکورہ حوالہ جات سے سیدنا امیر  معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی رسول،ہونا، دو ٹوک الفاظ سے بیان ہے۔ آج تک  
کسی نے صحابیت کا انکار نہیں کیا۔ علاوہ ازیں ان کے کاتب وحی ہونے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت احادیث کرنے کے شواہد بھی مذکورہ حوالہ جات میں موجود ہیں اسلام قبول کرنے کے بعد اس میں حسن اور بہتری کی گواہی موجود ہے۔ ان فضائل اور کرامات کے ہوتے ہوئے وہ لوگ جو ان کی ذات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔ وہ بد بخت اور بد قسمت لوگ ہیں ۔
_____________________________________________
(طالب دعا :ایڈمن دفاع سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )

Comments

Popular posts from this blog

Hazrat E Ameer e Muawiya Akabreen ki Nazar Me

Hazrat Ameer e Muavia ka Katib e Wahi Hon